Iztirab

Iztirab

دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا

دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا 
سینے میں داغ ہے ، کے مٹایا نہ جائے گا 
تم کو ہزار شرم سہی ، مُجھ کو لاکھ ضبط 
الفت وہ راز ہے کے چھپایا نہ جائے گا 
اے دل رضائے غیر ہے ، شرط رضائے دوست 
زنہار بار عشق اٹھایا نہ جائے گا 
دیکھی ہیں ایسی ان کی بہت مہربانیاں 
اب ہم سے منہ میں مُوت کہ جایا نہ جائے گا 
مے تند و ظرف حوصلۂ اہل بزم تنگ 
ساقی سے جام بھر کہ پلایا نہ جائے گا 
راضی ہیں ہم کے دوست سے ہو دشمنی مگر 
دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا 
کیوں چھیڑتے ہو ذکر نہ ملنے کا رات کہ
پوچھیں گے ہم سبب تو بتایا نہ جائے گا 
بگڑیں نہ بات بات پہ کیوں جانتے ہیں وہ 
ہم وہ نہیں کے ہم کو منایا نہ جائے گا 
ملنا ہے آپ سے تُو نہیں حصر غیر پر 
کس کس سے اختلاط بڑھایا نہ جائے گا 
مقصود اپنا کچھ نہ کھلا لیکن اِس قدر 
یعنی وہ ڈھونڈتے ہیں ، جو پایا نہ جائے گا 
جھگڑوں میں اہل دیں کہ نہ حالیؔ پڑیں بس آپ 
.قصہ حضور سے یہ چکایا نہ جائے گا 

الطاف حسین حالی 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *