Iztirab

Iztirab

دل سے ہر گزری بات گزری ہے

دل سے ہر گزری بات گزری ہے 
کس قیامت کی رات گزری ہے 
چاندنی نیم وا دریچہ سکوت 
آنکھوں آنکھوں میں رات گزری ہے 
ہائے وہ لوگ خوب صورت لوگ 
جن کی دھن میں حیات گزری ہے 
تمتماتا ہے چہرۂ ایام 
دل پہ کیا واردات گزری ہے 
کسی بھٹکے ہوئے خیال کی موج 
کتنی یادوں کے سات گزری ہے 
پھر کوئی آس لڑکھڑائی ہے 
کہ نسیم حیات گزری ہے 
بجھتے جاتے ہیں دکھتی پلکوں پہ دیپ 
نیند آئی ہے رات گزری ہے 

مجید امجد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *