Iztirab

Iztirab

دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں

دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں 
کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں 
دنیائے دل تباہ کئے جا رہا ہوں میں 
صرف نگاہ و آہ کئے جا رہا ہوں میں 
فرد عمل سیاہ کئے جا رہا ہوں میں 
رحمت کو بے پناہ کئے جا رہا ہوں میں 
ایسی بھی اک نگاہ کئے جا رہا ہوں میں 
ذروں کو مہر و ماہ کئے جا رہا ہوں میں 
مجھ سے لگے ہیں عشق کی عظمت کو چار چاند 
خود حسن کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں 
دفتر ہے ایک معنی بے لفظ و صوت کا 
سادہ سی جو نگاہ کئے جا رہا ہوں میں 
آگے قدم بڑھائیں جنہیں سوجھتا نہیں 
روشن چراغ راہ کئے جا رہا ہوں میں 
معصومی جمال کو بھی جن پہ رشک ہے 
ایسے بھی کچھ گناہ کئے جا رہا ہوں میں 
تنقید حسن مصلحت خاص عشق ہے 
یہ جرم گاہ گاہ کئے جا رہا ہوں میں 
اٹھتی نہیں ہے آنکھ مگر اس کے روبرو 
نادیدہ اک نگاہ کئے جا رہا ہوں میں 
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز 
کانٹوں سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں 
یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر 
جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں 
مجھ سے ادا ہوا ہے جگرؔ جستجو کا حق 
.ہر ذرے کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *