Iztirab

Iztirab

دل پا کہ اس کی زلف میں آرام رہ گیا

دل پا کہ اس کی زلف میں آرام رہ گیا 
درویش جس جگہ کہ ہوئی شام رہ گیا 
جھگڑے میں ہم مبادی کہ یاں تک پھنسے کے آہ 
مقصود تھا جُو اپنے تئیں کام رہ گیا 
ناپختگی کا اپنی سبب اس ثمر سے پُوچھ 
جلدی سے باغباں کی وہ جُو خام رہ گیا 
صیاد تُو تُو جا ہے پر اِس کی بھی کچھ خبر 
جُو مرغ ناتواں کے تہ دام رہ گیا 
قسمت تُو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند 
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا 
ماریں ہیں ہم نگین سلیماں کو پشت دست 
جب مٹ گیا نشان تُو گو نام رہ گیا 
نے تُجھ پہ وہ بہار رہی اور نہ یاں وہ دل 
کہنے کو نیک و بد کہ اک الزام رہ گیا 
موقوف کچھ کمال پہ یاں کام دل نہیں 
مُجھ کو ہی دیکھ لینا کے ناکام رہ گیا 
قائمؔ گئے سب اس کی زباں سے جُو تھے رفیق 
.اِک بے حیا میں کھانے کو دشنام رہ گیا 

قائم چاند پوری 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *