Iztirab

Iztirab

دل کیے تسخیر بخشا فیض روحانی مجھے

دل کیے تسخیر بخشا فیض روحانی مجھے
حب قومی ہو گیا نقش سلیمانی مجھے
منزل عبرت ہے دنیا اہل دنیا شاد ہیں
ایسی دلجمعی سے ہوتی ہے پریشانی مجھے
جانچتا ہوں وسعت دل حملۂ غم کے لیے
امتحاں ہے رنج و حرماں کی فراوانی مجھے
حق پرستی کی جو میں نے بت پرستی چھوڑ کر
برہمن کہنے لگے الحاد کا بانی مجھے
کلفت دنیا مٹے بھی تو سخی کے فیض سے
ہاتھ دھونے کو ملے بہتا ہوا پانی مجھے
خود پرستی مٹ گئی قدر محبت بڑھ گئی
ماتم حباب ہے تعلیم روحانی مجھے
قوم کا غم مول لے کر دل کا یہ عالم ہوا
یاد بھی آتی نہیں اپنی پریشانی مجھے
ذرہ ذرہ ہے مرے کشمیر کا مہماں نواز
راہ میں پتھر کے ٹکڑوں نے دیا پانی مجھے
لکھنؤ میں پھر ہوئی آراستہ بزم سخن
بعد مدت پھر ہوا ذوق غزل خوانی مجھے

برج نرائن چکبست

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *