دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں دنیا کرے تلاش نیا جام جم کوئی اس کی جگہ نہیں مرے جام سفال میں آزردہ اس قدر ہوں سراب خیال سے جی چاہتا ہے تم بھی نہ آؤ خیال میں دنیا ہے خواب حاصل دنیا خیال ہے انسان خواب دیکھ رہا ہے خیال میں اہل چمن ہمیں نہ اسیروں کا طعن دیں وہ خوش ہیں اپنے حال میں اہم اپنی چال میں سیمابؔ اجتہاد ہے حسن طلب مرا ترمیم چاہتا ہوں مذاق جمال میں
سیماب اکبر آبادی