Iztirab

Iztirab

دل کی دیوار میں آئینہ رکھا تھا کس نے

دل کی دیوار میں آئینہ رکھا تھا کس نے 
مجھ کو پہچانتے رہنے کو کہا تھا کس نے 
دشمن جاں ترے ہاتھوں میں تو پتھر بھی نہ تھا 
لذت خواب کو نم دیدہ کیا تھا کس نے 
اب بہت دور نکل جانے کو جی چاہتا ہے 
مجھ کو جاتے ہوئے دیوانہ کہا تھا کس نے 
اس کی آنکھوں میں بلاوا ہی نہ تھا سچ یہ ہے 
اے شب ہجر تجھے ساتھ کیا تھا کس نے 
انجمن انجمن قصے تھے ہمارے کل تک 
آج ویرانی کو آنکھوں میں رکھا تھا کس نے 
نام تو اس کا بھلا سا تھا مگر یاد نہیں 
سسکیاں لے کے تجھے یاد کیا تھا کس نے 

کشور ناہید

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *