Iztirab

Iztirab

دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے

دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے
آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے
خود جو نہ ہونے کا ہو عدم کیا اسے ہونا کہتے ہیں
نیست نہ ہو تو ہست نہیں یہ ہستی کیا ہستی ہے
عجز گناہ کے دم تک ہیں عصمت کامل کے جلوے
پستی ہے تو بلندی ہے راز بلندی پستی ہے
جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں
آگے مرضی گاہک کی ان داموں تو سستی ہے
وحشت دل سے پھرنا ہے اپنے خدا سے پھر جانا
دیوانے یہ ہوش نہیں یہ تو ہوش پرستی ہے
جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا
جب بھی دنیا بستی تھی اب بھی دنیا بستی ہے
آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے
دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے
فانیؔ جس میں آنسو کیا دل کے لہو کا کال نہ تھا
ہائے وہ آنکھ اب پانی کی دو بوندوں کو ترستی ہے

فانی بدایونی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *