Iztirab

Iztirab

دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں

دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں 
بازار سے گزرا ہوں ، خریدار نہیں ہوں 
زندہ ہوں مگر زیست کی لذت نہیں باقی 
ہر چند کے ہوں ہوش میں ہشیار نہیں ہوں 
اِس خانۂ ہستی سے گزر جاؤں گا بے لوث 
سایہ ہوں فقط نقش بہ دیوار نہیں ہوں 
افسردہ ہوں عبرت سے دوا کی نہیں حاجت 
غم کا مُجھے یہ ضعف ہے بیمار نہیں ہوں 
وُہ گل ہوں خزاں نے جسے برباد کیا ہے 
الجھوں کسی دامن سے میں وُہ خار نہیں ہوں 
یا رب مُجھے محفوظ رکھ اِس بت کہ ستم سے 
میں اِس کی عنایت کا طلب گار نہیں ہوں 
گو دعوی تقوی نہیں درگاہ خُدا میں 
بت جس سے ہوں خُوش ایسا گنہ گار نہیں ہوں 
افسردگی و ضعف کی کچھ حد نہیں اکبرؔ 
.کافر کہ مقابِل میں بھی دیں دار نہیں ہوں 

اکبر الہ آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *