Iztirab

Iztirab

دور سے آئے تھے ساقی سُن کہ مے خانے کو ہم

دور سے آئے تھے ساقی سُن کہ مے خانے کو ہم 
بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم 
مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں 
دِل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم 
کیوں نہیں لیتا ہماری تُو خبر اے بے خبر 
کیا تیرے عاشق ہوئے تھے درد و غم کھانے کو ہم 
ہم کو پھنسنا تھا قفس میں کیا گلہ صیاد کا 
بس ترستے ہی رہے ہیں آب اُور دانے کو ہم 
طاق ابرو میں صنم کہ کیا خدائی رہ گئی 
اب تُو پوجیں گے اِسی کافر کہ بت خانے کو ہم 
باغ میں لگتا نہیں صحرا سے گھبراتا ہے دِل 
اب کہاں لے جا کہ بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم 
کیا ہوئی تقصیر ہم سے تُو بتا دے اے نظیرؔ 
.تاکے شادی مرگ سمجھیں ایسے مر جانے کو ہم 

نظیر اکبر آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *