Iztirab

Iztirab

دور فلک کے شکوے گلے روزگار کے

دور فلک کے شکوے گلے روزگار کے 
ہیں مشغلے یہی دل ناکردہ کار کے 
یوں دل کو چھیڑ کر نگۂ ناز جھک گئی 
چھپ جائے کوئی جیسے کسی کو پکار کے 
سینے کو اپنے اپنا گریباں بنا کے ہم 
قائل نہیں ہیں پیرہن تار تار کے 
کیا کیجئے کشش ہے کچھ ایسی گناہ میں 
میں ورنہ یوں فریب میں آتا بہار کے 
اک دل اور اس پہ حسرت ارماں کا یہ ہجوم 
کیا کیا کرم ہیں مجھ پہ مرے کرد گار کے 
ہم کو تو روز حشر کا بھی کچھ یقیں نہیں 
کیا منتظر ہوں وعدۂ فردائے یار کے 
کس دل سے تیرا شکوۂ بیداد کر سکیں 
مارے ہوئے ہیں ہم نگۂ شرمسار کے 

گوپال متل

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *