Iztirab

Iztirab

دور کنارا

پھیلی دھرتی کے سینے پہ جنگل بھی ہیں لہلہاتے ہوئے 
اور دریا بھی ہیں دور جاتے ہوئے 
اور پربت بھی ہیں اپنی چپ میں مگن 
اور ساگر بھی ہیں جوش کھاتے ہوئے 
ان پہ چھایا ہوا نیلا آکاش ہے 
نیلے آکاش میں نور لاتے ہوئے دن کو سورج بھی ہے 
شام جانے پہ ہے چاند سے سامنا 
رات آنے پہ ننھے ستارے بھی ہیں جھلملاتے ہوئے 
اور کچھ بھی نہیں 
اب تک آئی نہ آئندہ تو آئے گی بس یہی بات ہے 
اور کچھ بھی نہیں 
ایک تو ایک میں دور ہی دور ہیں 
آج تک دور ہی دور ہر بات ہوتی رہی 
دور ہی دور جیون گزر جائے گا 
لہر سے لہر ٹکرائے کیسے کہو 
اور ساحل سے چھو جائے کیسے کہو 
لہر کو لہر سے دور کرتی ہوئی بیچ میں سینکڑوں اور لہریں بھی ہیں 
اور کچھ بھی نہیں 
چھائی مستی جو دل پر مرے بھول کی 
ایک ہی بات رہ رہ کے کہتا ہے 
ایک ہی دھیان کے درد میں دل کو لذت ملی 
آرزو کی کلی کب کھلی 
ایک ہی موج پر میں تو بہتا رہا 
اب تک آئی نہ آئندہ تو آئے گی 
چاہے دھرتی کے سینے پہ جنگل نہ ہوں 
چاہے پربت نہ ہوں چاہے دریا نہ ہوں چاہے ساگر نہ ہوں 
نیلے آکاش میں چاند تارے نہ ہوں کوئی سورج نہ ہو 
رات دن ہوں نہ دنیا میں شام و سحر 
کوئی پروا نہیں 
ایک ہی دھیان ہے 
دور ہی دور جیون گزر جائے گا اور کچھ بھی نہیں 

میراجی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *