Iztirab

Iztirab

دوسرا تجربہ

کل شب عجیب ادا سے تھا اک حسن مہرباں
وہ شبنمی گلاب سی رنگت دھلی دھلی
شانوں پہ بے قرار وہ زلفیں کھلی کھلی
ہر خط جسم پیرہن چست سے عیاں
ٹھہرے بھی گر نگاہ تو ٹھہرے کہاں کہاں
ہر زاویے میں حسن کا اک تازہ بانکپن
ہر دائرے میں کھلتے ہوئے پھول کی پھبن
آنکھوں میں ڈولتے ہوئے نشے کی کیفیت
روئے حسیں پہ ایک شکستہ سی تمکنت
ہونٹوں پہ ان کہی سی تمنا کی لرزشیں
بانہوں میں لمحہ لمحہ سمٹنے کی کاوشیں
سینے کے جزر و مد میں سمندر سا اضطراب
امڈا ہوا سا جذبہ بیدار کا عذاب
خوشبو طواف قامت زیبا کیے ہوئے
شیشہ بدن کا عزم زلیخا لیے ہوئے
پھر یوں ہوا کہ چھڑ گئی یوسف کی داستاں
پھر میں تھا اور پاک دامن کا امتحاں
اک سانپ بھی تھا آدم و حوا کے درمیاں
حمایت علی شاعر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *