Iztirab

Iztirab

دوکان مے فروش پہ گر آئے محتسب

دوکان مے فروش پہ گر آئے محتسب 
دن عید کے تو خوب گھڑا جائے محتسب 
اے چرخ فتنہ گر یہ روا ہے کہ ہر برس 
صہبا کشوں پہ باج کی ٹھہرائے محتسب 
مستوں نے سنگسار کیا اس کو بارہا 
لیکن گیا نہ اس پہ بھی سودائے محتسب 
ہاتھوں سے اس کے شیشۂ دل چور ہے مرا 
یارب کیے کی اپنے سزا پائے محتسب 
یہ کوئے مے فروش میں رولا ہوا کہ رات 
دہشت سے واں ٹھہر نہ سکا پائے محتسب 
مست شراب عشق کو بازار دہر میں 
زنہار بیم شحنہ نہ پروائے محتسب 
کچھ دے کے رشوت اس کو تو پی مصحفیؔ شراب 
سب زر کے واسطے ہے یہ غوغائے محتسب 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *