دِل چرانا یہ کام ہے ترا لے گیا ہے تُو نام ہے ترا ہے قیامت بپا کے جلوے میں قامت خوش خرام ہے ترا جس نے عالم کیا ہے زیر و زبر یہ خط مشک فام ہے ترا دید کرنے کو چاہئیں آنکھیں ہر طرف جلوہ عام ہے ترا کس کا یہ خوں کیے تُو آتا ہے دامن افشاں تمام ہے ترا ہو نہ ہو تُو ہماری مجلس میں تذکرہ صبح و شام ہے ترا تیغ ابرو ہمیں بھی دے اِک زخم سر پہ عالم کہ دام ہے ترا تُو جُو کہتا ہے مصحفیؔ ادھر آ .مصحفیؔ کیا غلام ہے ترا
مصحفی غلام ہمدانی