Iztirab

Iztirab

دھوم تھی اپنی پارسائی کی

دھوم تھی اپنی پارسائی کی 
کی بھی اور کس سے آشنائی کی 
کیوں بڑھاتے ہو اختلاط بہت 
ہم کو طاقت نہیں جدائی کی 
منہ کہاں تک چھپاؤ گے ہم سے 
تم کو عادت ہے ، خود نمائی کی 
لاگ میں ہیں لگاؤ کی باتیں 
صلح میں چھیڑ ہے لڑائی کی 
ملتے غیروں سے ہو ملو لیکن 
ہم سے باتیں کرو صفائی کی 
دل رہا پائے بند الفت دام 
تھی عبث آرزو رہائی کی 
دل بھی پہلو میں ہو تُو یاں کس سے 
رکھئے اُمید دل ربائی کی 
شہر و دریا سے باغ و صحرا سے 
بو نہیں آتی آشنائی کی 
نہ ملا کوئی غارت ایماں 
رہ گئی شرم پارسائی کی 
بخت ہم داستانی شیدا 
تُو نے آخر کو نارسائی کی 
صحبت گاہ گاہی رشکی 
تُو نے بھی ہم سے بے وفائی کی 
مُوت کی طرح جس سے ڈرتے تھے 
ساعت آ پہنچی اِس جدائی کی 
زندہ پھرنے کی ہے ہوس حالیؔ 
.انتہا ہے یہ بے حیائی کی

الطاف حسین حالی 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *