Iztirab

Iztirab

دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے

دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
تمہارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے
بہار آئی ہے نشہ میں جھومتے ہیں
مریدان پیر مغاں کیسے کیسے
عجب کیا چھٹا روح سے جامہ تن
لٹے راہ میں کارواں کیسے کیسے
تپ ہجر کی کاہشوں نے کئے ہیں
جدا پوست سے استخواں کیسے کیسے
نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
بہار گلستاں کی ہے آمد آمد
خوشی پھرتے ہیں باغباں کیسے کیسے
توجہ نے تیری ہمارے مسیحا
توانا کئے ناتواں کیسے کیسے
دل و دیدہ اہل عالم میں گھر ہے
تمہارے لیے ہیں مکاں کیسے کیسے
غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
ترے کلک قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے
کرے جس قدر شکر نعمت وہ کم ہے
.مزے لوٹتی ہے زباں کیسے کیسے

خواجہ حیدر علی آتش

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *