Iztirab

Iztirab

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے 
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے 
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک 
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے 
خانہ دل سے زینہار نہ جا 
کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے 
نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا 
شور اک آسماں سے اٹھتا ہے 
لڑتی ہے اس کی چشم شوخ جہاں 
ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے 
سدھ لے گھر کی بھی شعلہ آواز 
دود کچھ آشیاں سے اٹھتا ہے 
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو 
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے 
یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم 
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے 
عشق اک میرؔ بھاری پتھر ہے 
.کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے

میر تقی میر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *