Iztirab

Iztirab

دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشت طلب کی دھول میاں

دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشت طلب کی دھول میاں
ہم سے عجب ترا درد کا ناطہ دیکھ ہمیں مت بھول میاں
اہل وفا سے بات نہ کرنا ہوگا ترا اصول میاں
ہم کیوں چھوڑیں ان گلیوں کے پھیروں کا معمول میاں
یوں ہی تو نہیں دشت میں پہنچے یوں ہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے جنگل جنگل پھول میاں
یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے جگ میں ہوئے ہو رسوا بھی؟
اس کے سوا ہم کچھ بھی نہ پوچھیں باقی بات فضول میاں
نصب کریں محراب تمنا دیدہ و دل کو فرش کریں
سنتے ہیں وہ کوئے وفا میں آج کریں گے نزول میاں
سن تو لیا کسی نار کی خاطر کاٹا کوہ نکالی نہر
ایک ذرا سے قصے کو اب دیتے کیوں ہو طول میاں
کھیلنے دیں انہیں عشق کی بازی کھلیں گے تو سیکھیں گے
قیسؔ کی یا فرہادؔ کی خاطر کھولیں کیا اسکول میاں
اب تو ہمیں منظور ہے یہ بھی شہر سے نکلیں رسوا ہوں
تجھ کو دیکھا باتیں کر لیں محنت ہوئی وصول میاں
انشاؔ جی کیا عذر ہے تم کو نقد دل و جاں نذر کرو
روپ نگر کے ناکے پر یہ لگتا ہے محصول میاں
ابن انشاء

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *