Iztirab

Iztirab

ذرا سی بات

زندگی کہ میلے میں خواہشوں کہ ریلے میں 
تم سے کیا کہیں جاناں اِس قدر جھمیلے میں 
وقت کی روانی ہے بخت کی گرانی ہے 
سخت بے زمینی ہے سخت لا مکانی ہے 
ہجر کہ سمندر میں 
تخت اُور تختے کی ایک ہی کہانی ہے 
تم کو جُو سُنانی ہے 
بات گو ذرا سی ہے 
بات عمر بھر کی ہے 
عُمر بھر کی باتیں کب دُو گھڑی میں ہوتی ہیں 
درد کہ سمندر میں 
ان گنت جزیرے ہیں بے شمار مُوتی ہیں 
آنکھ کہ دریچے میں تم نے جُو سجایا تھا 
بات اِس دئے کی ہے 
بات اِس گلے کی ہے 
جُو لہو کی خلوت میں چور بن کہ آتا ہے 
لفظ کی فصیلوں پر ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے 
زندگی سے لمبی ہے بات رت جگے کی ہے 
راستے میں کیسے ہو 
بات تخلیئے کی ہے 
تخلیئے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے 
پیار کرنے والوں کو اِک نگاہ کافی ہے 
ہو سکے تُو سُن جاؤ ایک روز اکیلے میں 
.تم سے کیا کہیں جاناں اِس قدر جھمیلے ہیں 

امجد اسلام امجد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *