Iztirab

Iztirab

ذرا صبر

اک نئے دور کی ترتیب کے ساماں ہوں گے 
دست جمہور میں شاہوں کے گریباں ہوں گے 
برق خود اپنی تجلی کی محافظ ہوگی
پھول خود اپنی لطافت کے گریباں ہوں گے 
نغمہ و شعر کا سیلاب امڈ آئے گا 
وقت کے سحر سے غنچے بھی غزل خواں ہوں گے 
ناؤ منجدھار سے بے خوف و خطر کھیلے گی 
ناخدا بربط طوفاں پہ رجز خواں ہوں گے 
راہ رو اپنی مسافت کا صلہ مانگیں گے 
رہنما اپنی سیاست پہ پشیماں ہوں گے 
راست گفتار کہ ہیں ناقد اولاد فرنگ 
وقت کہتا ہے کہ پھر داخل زنداں ہوں گے 
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے 
ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے

شورش کاشمیری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *