رات آئی ہے گزر جائے گی روشنی بن کے بکھر جائے گی ہاں یوں ہی چاند کو تکتے رہنا چاندنی دل میں اتر جائے گی لذت درد بچا کر رکھنا نکہت جاں ہے بکھر جائے گی کرب کی آگ لگا لو دل سے کل خدا جانے کدھر جائے گی اسی رستے پہ بہا اپنا لہو اسی رستے سے سحر جائے گی جسم کٹنا تھا یہ معلوم نہ تھا یوں مری ذات بکھر جائے گی میں نے جی بھر کے تجھے دیکھنا ہے اب تری شکل نکھر جائے گی