Iztirab

Iztirab

رات جدائی کی رات

کٹتی نہیں سرد رات 
ڈھلتی نہیں زرد رات 
رات جدائی کی رات 
خالی گلاسوں کی سمت 
تکتی ہوئی آنکھ میں 
قطرۂ شبنم نہیں 
کون لہو میں بہے 
میری رگوں میں چلے 
تیز ہو سانسوں کا شور 
جلنے لگے پور پور 
آئے سمندر میں جوش 
گر پڑے دیوار ہوش 
سوکھی ہوئی شاخ پر 
برگ و ثمر کھل اٹھیں 
آؤ مری نیند کی 
بکھری ہوئی پتیاں 
آج سمیٹو ذرا 
کب سے کھلا ہے بدن 
اس کو لپیٹو ذرا 
ایک شکن دو شکن 
بستر تنہائی پر 
پھر سے بڑھا دو ذرا 
مجھ کو رلا دو ذرا 
ایک پہر رات ہے 
رات جدائی کی رات 

شہریار

2 thoughts on “رات جدائی کی رات”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *