رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا شعلہ سمجھا تھا اسے میں پہ بھبھوکا نکلا مہر و مہ اس کی پھبن دیکھ کے حیران رہے جب ورق یار کی تصویر دورو کا نکلا یہ ادا دیکھ کے کتنوں کا ہوا کام تمام نیمچہ کل جو ٹک اس عربدہ جو کا نکلا مر گئی سرو پہ جب ہو کے تصدق قمری اس سے اس دم بھی نہ طوق اپنے گلو کا نکلا مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
غلام ہمدانی مصحفی