راحت نظر بھی ہے وہ عذاب جاں بھی ہے
اس سے ربط لذت بھی اور امتحاں بھی ہے
فاصلے مٹے بھی ہیں اور کچھ بڑھے بھی ہیں
یہ سفر ضروری ہے اور رائیگاں بھی ہے
عمر بھر کی الجھن دے ایک پل کا نظارہ
تیرا غم حقیقت بھی اور بے نشاں بھی ہے
تیری میٹھی باتوں میں جھیل جھیل آنکھوں میں
آگ بھی سلگتی ہے درد سے اماں بھی ہے
طے کریں تو ہم کیسے فاصلے دل و جاں کے
ایک یہ انا کا پل اپنے درمیاں بھی ہے
لاکھ میں تجھے بھولوں لاکھ تو مجھے بھولے
ایک رشتۂ بے نام اپنے درمیاں بھی ہے
عشق دل میں طغیانی برف برف ہونٹوں پر
سرپھری بھی ہے چاہت اور بے زباں بھی ہے
تیری زندگی سرگرم میری زندگی الجھن
رقص میں بھی ہے خواہش اور سرگراں بھی ہے
شامؔ جانے کیوں ہم نے سی لیا ہے ہونٹوں کو
ورنہ اپنے ہاتھوں میں وقت کی عناں بھی ہے
محمود شام