Iztirab

Iztirab

راز دل کیوں نہ کہوں سامنے دیوانوں کے

راز دل کیوں نہ کہوں سامنے دیوانوں کے
یہ تو وہ لوگ ہیں اپنوں کے نہ بیگانوں کے
وہ بھی کیا دور تھے ساقی ترے مستانوں کے
راستے راہ تکا کرتے تھے مے خانوں کے
بادلوں پر یہ اشارے ترے دیوانوں کے
ٹکڑے پہنچے ہیں کہاں اڑ کے گریبانوں کے
راستے بند کئے دیتے ہو دیوانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے
نہ اذاں دیتا نہ ہشیار برہمن ہوتا
در تو اس شیخ نے کھلوائے ہیں بت خانوں کے
آپ دن رات سنوارا کریں گیسو تو کیا
کہیں حالات بدلتے ہیں پریشانوں کے
منع کر گریۂ شبنم پہ نہ یہ پھول ہنسیں
لالے پڑ جائیں گے اے باد صبا جانوں کے
کیا زمانہ تھا ادھر شام ادھر ہاتھ میں جام
صبح تک دور چلا کرتے تھے پیمانوں کے
وہ بھی کیا دن تھے ادھر شام ادھر ہاتھ میں جام
اب تو رستے بھی رہے یاد نہ مے خانوں کے
آج تک تو مری کشتی نے نہ پائی منزل
قافلے سینکڑوں گم ہو گئے طوفانوں کے
خاک صحرا پہ لکیریں ہیں انہیں پھر دیکھو
کہیں یہ خط نہ ہوں لکھے ہوئے دیوانوں کے
دیکھیے چرخ پہ تارے بھی ہیں کیا بے ترتیب
جیسے بکھرے ہوئے ٹکڑے مرے پیمانوں کے
ہاتھ خالی ہیں مگر ملک عدم کا ہے سفر
حوصلے دیکھیے ان بے سر و سامانوں کے
سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں جو کعبہ میں قمرؔ
ایسے ہوتے ہیں نکالے ہوئے بت خانوں کے

قمر جلالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *