Iztirab

Iztirab

رفعت کبھی کسی کی گوارا یہاں نہیں

رفعت کبھی کسی کی گوارا یہاں نہیں 
جس سر زمیں کہ ہم ہیں وہاں آسماں نہیں 
دُو روز ایک وضع پہ رنگ جہاں نہیں 
وُہ کون سا چمن ہے کے جس کو خزاں نہیں 
عبرت کی جا ہے لاکھوں ہی طفل و جواں نہیں 
پیری میں بھی خیال اجل کا یہاں نہیں 
دُشمن اگر وُہ دوست ہوا ہے تُو کیا عجب 
یاں اعتماد دوستیٔ جسم و جاں نہیں 
رفتار ناز میں یہ لچک جاتی ہے کے بس 
گویا تیری کمر میں صنم استخواں نہیں 
منعم کہ شکر میں بھی ہلائیں کبھی کبھی 
تنہا برائے لذت دنیا زباں نہیں 
پژمردہ ایک ہے تُو شگفتہ ہے دوسرا 
باغ جہاں میں فصل بہار و خزاں نہیں 
جن کہ سروں پر آپ مگس راں رہے ہما 
ان کا لحد میں آج کوئی استخواں نہیں 
دھوکا نہ کھا ظروف وضو کو تُو دیکھ کر 
.مسجد ہے مے فروش کی ناسخؔ دکاں نہیں 

امام بخش ناسخ 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *