Iztirab

Iztirab

رقص

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے 
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں 
ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو 
رقص گہ کے چور دروازے سے آ کر زندگی 
ڈھونڈ لے مجھ کو، نشاں پا لے میرا 
اور جرم عیش کرتے دیکھ لے

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے 
رقص کی یہ گردشیں 
ایک مبہم آسیا کے دور ہیں 
کیسی سرگرمی سے غم کو روندتا جاتا ہوں میں
جی میں کہتا ہوں کہ ہاں
رقص گاہ میں زندگی کے جھانکنے سے پیشتر 
کلفتوں کا سنگ ریزہ ایک بھی رہنے نہ پائے

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے 
زندگی میرے لیے 
ایک خونیں بھیڑیے سے کم نہیں 
اے حسین و اجنبی عورت اسی کے ڈر سے میں 
ہو رہا ہوں لمحہ لمحہ اور بھی تیرے قریب 
جانتا ہوں تو مری جاں بھی نہیں 
تجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں 
تو مری ان آرزؤں کی مگر تمثیل ہے 
جو رہیں مجھ سے گریزاں آج تک

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے 
عہد پارینہ کا میں انساں نہیں 
بندگی سے اس در و دیوار کی 
ہو چکی ہیں خواہشیں بے سوز و رنگ و ناتواں 
جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں 
زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں
اس لیے اب تھام لے 
اے حسین و اجنبی عورت مجھے اب تھام لے

ن         م         راشد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *