Iztirab

Iztirab

رقیب

تمہی کو آج مرے روبرو بھی ہونا تھا 
اور ایسے رنگ میں جس کا کبھی گماں بھی نہ ہو 
نگاہ تند غضب ناک دل کلام درشت 

چمن میں جیسے کسی باغباں کی آنکھوں نے 
روش کے ساتھ ہی ننھے سے ایک پودے کو 
شگفتہ ہو کے سنورتے نکھرتے دیکھا ہو 
مری تمہاری کہانی یہی کہانی ہے 

روش پر سر کو اٹھائے ہر ایک سوچ سے دور 
میں اپنی دھن میں مگن تھا ہر تازہ قدم 
مرے افق پہ چمکتے ہوئے ستارے کی 
ہر اک کرن کو مرے پاس لائے جاتا تھا 
مجھے نہ خار کا اندیشہ تھا نہ ٹھوکر کا 
مگر یہ بھول تھی میری وہ خود فراموشی 

مرے ہی سامنے آئی ہے اور صورت میں 
نگاہ تند غضب ناک دل کلام درشت 
مگر اب اس کی ضرورت نہیں میں سوچتا ہوں 
تمہی کو آج مرے روبرو نہ ہونا تھا 
جہاں میں اور بھی تھے مجھ سے تم سے بڑھ کے کہیں 
جو اجنبی تھے جنہیں اجنبی ہی رہنا تھا 

مجھے کسی نے بتایا ہے آپ کے یہ دوست 
ہمیشہ رات گئے اپنے گھر کو آتے ہیں 
لبوں سے سیٹی بجاتے ہیں گنگناتے ہیں 
کسی کی آہ کسی کے کرم سے مٹتی ہے 

میں تجھ سے کہتی ہوں بہنا یہ کیا زمانہ ہے 
نہ اپنے نام کا کچھ پاس ہے نہ گھر کی لاج 
گئے مہینے سے ہر روز رات کو چھپ کر 
ہماری بی بی کسی مردوئے سے ملتی ہے 

مجھے یہ فکر نہیں نوکروں کو عادت ہے 
کہ پر کو کوا بناتے ہیں رائی کا پربت 
بس ایک دھیان کسی تیر کی طرح سیدھا 
یہ سوچ بن کے مرے دل میں آ ٹھہرتا ہے 
یہی ہے جس کا کبھی نام لاجونتی تھا 

میراجی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *