Iztirab

Iztirab

رقیبوں کا مُجھ سے گلا ہو رہا ہے

رقیبوں کا مُجھ سے گلا ہو رہا ہے 
یہ کیا کر رہے ہو یہ کیا ہو رہا ہے 
دُعا کو نہیں راہ ملتی فلک کی 
کچھ ایسا ہجوم بلا ہو رہا ہے 
وُہ جُو کر رہے ہیں بجا کر رہے ہیں 
یہ جُو ہو رہا ہے بجا ہو رہا ہے 
وُہ نا آشنا بے وفا مری ضد سے 
زمانے کا اب آشنا ہو رہا ہے 
چھپائے ہوئے دِل کو پھرتے ہیں بیخودؔ 
.کے خواہاں کوئی دل ربا ہوا ہے

بیخود بد ایونی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *