Iztirab

Iztirab

رنگینی ہوس کا وفا نام رکھ دیا

رنگینی ہوس کا وفا نام رکھ دیا 
خوددارئ وفا کا جفا نام رکھ دیا 
انسان کی جو بات سمجھ میں نہ آ سکی 
انساں نے اس کا حق کی رضا نام رکھ دیا 
خود غرضیوں کے سائے میں پاتی ہے پرورش 
الفت کو جس کا صدق و صفا نام رکھ دیا 
بے مہری حبیب کا مشکل تھا اعتراف 
یاروں نے اس کا ناز و ادا نام رکھ دیا 
فطرت میں آدمی کی ہے مبہم سا ایک خوف 
اس خوف کا کسی نے خدا نام رکھ دیا 
یہ روح کیا ہے جسم کا عکس لطیف ہے 
یہ اور بات ہے کہ جدا نام رکھ دیا 
مفلس کو اہل زر نے بھی کیا کیا دئیے فریب 
اپنی جفا کا حکم خدا نام رکھ دیا 

گوپال متل

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *