Iztirab

Iztirab

روزنا جرمن نژاد

روزنا جرمن نژاد
اس کے ہونٹوں میں حرارت
جسم میں طوفاں
برہنہ پنڈلیوں میں آگ
نیت میں فساد
رنگ و نسل و قامت و قد
سرزمین و دین کے سب تفرقوں سے بے نیاز
ہر کسی سے بے تکلف ایک حد تک دلنواز
وہ سبھی کی ہم پیالہ، ہم نفس
عمر شاید بیس سے اوپر برس یا دو برس
روزنا جرمن نژاد
اور دیکھنے والوں میں سب
اس کی آسودہ نگاہی بے محابا میگساری کے سبب
پیکر تسلیم و سر تا پا طلب
ان میں ہر اک کی متاع کل
بہائے التفات نیم شب
روزنا جرمن نژاد
اور اس کا دل زخموں سے چُور
اپنے ہمدردوں سے ہمسایوں سے دور
گھرکی دیواریں نہ دیواروں کے سایوں کا سرور
جنگ کے آتش کدے کا رزق کب سے بن چکا
ہر آہنی بازو کا خوں
ہر چاند سے چہرے کا نور
خلوتیں خاموش و ویراں
اور دہلیز پر اک مضطرب مرمر کا بت
ایستا وہ ہے بچشم ناصبور
کون ہے اپنوں میں باقی
تو سن راہ طلب کا شہسوار
ہر دریچے کا مقدر انتظار
اجنبی مہمان کی دستک خواب
شاید خواب کی تعبیر بھی
چند لمحوں کی رفاقت جاوداں بھی
حسرت تعمیر بھی
الوداعی شام آنسو، عہد و پیماں
مضطرب صیاد بھی نخچیر بھی
کون کر سکتا ہے ورنہ ہجر کے کالے سمندر کو عبور
اجنبی مہماں کا اک حرف فوار
نومید چاہت کا غرور
روزنا اب اجنبی کے ملک میں خود اجنبی
پھر بھی چہرے پر اداسی ہے نہ آنکھوں میں تھکن
اجنبی کا ملک جس میں چار سو
تاریکیاں ہی خیمہ زن
سب کے سایوں سے بدن
روزنا مرمر کا بت
اور اس کے گرد
ناچتے سائے بہت
خلوتیں خاموش و ویراں
اور دہلیز پر اک مضطرب مرمر کا بت
ایستا وہ ہے بچشم ناصبور
کون ہے اپنوں میں باقی
تو سن راہ طلب کا شہسوار
ہر دریچے کا مقدر انتظار
اجنبی مہمان کی دستک خواب
شاید خواب کی تعبیر بھی
چند لمحوں کی رفاقت جاوداں بھی
حسرت تعمیر بھی
الوداعی شام آنسو عہد و پیماں
مضطرب صیاد بھی نخچیر بھی
کون کر سکتا ہے ورنہ ہجر کے کالے سمندر کو عبور
اجنبی مہماں کا اک حرف فوار
نومید چاہت کا غرور
روزنا اب اجنبی کے ملک میں خود اجنبی
پھر بھی چہرے پر اداسی ہے نہ آنکھوں میں تھکن
اجنبی کا ملک جس میں چار سو
تاریکیاں ہی خیمہ زن
سب کے سایوں سے بدن
روزنا مرمر کا بت
اور اس کے گرد
ناچتے سائے بہت
سب کے ہونٹوں پر وہی حرف وفا
ایک ہی سب کی صدا
وہ سبھی کی ہم پیالہ ہم نفس
عمر شاید بیس سے اوپر برس یا دو برس
.اس کی آنکھوں میں تجسس اور بس

احمد فراز 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *