Iztirab

Iztirab

روشنیاں

آج بھی کتنی ان گنت شمعیں 
میرے سینے میں جھلملاتی ہیں 
کتنے عارض کی جھلکیاں اب تک 
دل میں سیمیں ورق لٹاتی ہیں 
کتنے ہیرا تراش جسموں کی 
بجلیاں دل میں کوند جاتی ہیں 
کتنی تاروں سے خوش نما آنکھیں 
میری آنکھوں میں مسکراتی ہیں 
کتنے ہونٹوں کی گل فشاں آنچیں 
میرے ہونٹوں میں سنسناتی ہیں 
کتنی شب تاب ریشمی زلفیں 
میرے بازو پہ سرسراتی ہیں 
کتنی خوش رنگ موتیوں سے بھری 
بالیاں دل میں ٹمٹماتی ہیں 
کتنی گوری کلائیوں کی لویں 
دل کے گوشوں میں جگمگاتی ہیں 
کتنی رنگیں ہتھیلیاں چھپ کر 
دھیمے دھیمے کنول جلاتی ہیں 
کتنی آنچل سے پھوٹتی کرنیں 
میرے پہلو میں رسمساتی ہیں 
کتنی پائل کی شوخ جھنکاریں 
دل میں چنگاریاں اڑاتی ہیں 
کتنی انگڑائیاں دھنک بن کر 
خود ابھرتی ہیں ٹوٹ جاتی ہیں 
کتنی گل پوش نقرئی بانہیں 
دل کو حلقے میں لے کے گاتی ہیں 
آج بھی کتنی ان گنت شمعیں 
میرے سینے میں جھلملاتی ہیں 
اپنے اس جلوہ گر تصور کی 
جاں فزا دل کشی سے زندہ ہوں 
ان ہی بیتے جوان لمحوں کی 
شوخ تابندگی سے زندہ ہوں 
یہی یادوں کی روشنی تو ہے 
آج جس روشنی سے زندہ ہوں 
آؤ میں تم سے اعتراف کروں 
میں اسی شاعری سے زندہ ہوں 

جاں نثاراختر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *