Iztirab

Iztirab

روٹیاں

جب آدمی کہ پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں 
پھولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں 
آنکھیں پری رخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں 
سینے اپر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں 
جتنے مزے ہیں سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں 
روٹی سے جس کا ناک تلک پیٹ ہے بھرا 
کرتا پرے ہے کیا وُہ اچھل کود جا بہ جا 
دیوار پھاند کر کوئی کوٹھا اچھل گیا 
ٹھٹھا ہنسی شراب صنم ساقی اس سوا 
سُو سُو طرح کی دھوم مچاتی ہیں روٹیاں 
جس جا پہ ہانڈی چولہا توا اور تنور ہے 
خالق کی قدرتوں کا اسی جا ظہور ہے 
چولھے کہ آگے آنچ جُو چلتی حضور ہے 
جتنے ہیں نُور سب میں یہی خاص نور ہے 
اس نُور کہ سبب نظر آتی ہیں روٹیاں 
آوے توے تنور کا جس جا زباں پہ نام 
یا چکی چولھے کہ جہاں گُل زار ہوں تمام 
واں سر جھکا کہ کیجے ڈنڈوت اُور سلام 
اس واسطے کے خاص یہ روٹی کہ ہیں مقام 
پہلے انہیں مکانوں میں آتی ہیں روٹیاں 
ان روٹیوں کہ نور سے سب دِل ہیں بور بور 
آٹا نہیں ہے چھلنی سے چھن چھن گرے ہے نور 
پیڑا ہر ایک اس کا ہے برفی و موتی چور 
ہرگز کسی طرح نہ بجھے پیٹ کا تنور 
اس آگ کو مگر یہ بجھاتی ہیں روٹیاں 
پُوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے 
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے 
وُہ سُن کہ بولا بابا خُدا تُجھ کو خیر دے 
ہم تُو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے 
بابا ہمیں تُو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں 
پھر پُوچھا اس نے کہیے یہ ہے دِل کا طور کیا 
اس کہ مشاہدے میں ہے کھلتا ظہور کیا 
وہ بولا سُن کہ ترا گیا ہے شعور کیا 
کشف القلوب اُور یہ کشف القبور کیا 
جتنے ہیں کشف سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں 
روٹی جب آئی پیٹ میں سو قند گھل گئے 
گلزار پھولے آنکھوں میں اُور عیش تل گئے 
دو تر نوالے پیٹ میں جب آ کہ ڈھل گئے 
چودہ طبق کہ جتنے تھے سب بھید کھل گئے 
یہ کشف یہ کمال دکھاتی ہیں روٹیاں 
روٹی نہ پیٹ میں ہو تُو پھر کچھ جتن نہ ہو 
میلے کی سیر خواہش باغ و چمن نہ ہو 
بھوکے غریب دِل کی خُدا سے لگن نہ ہو 
سچ ہے کہا کسی نے کے بھوکے بھجن نہ ہو 
اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں 
اب آگے جس کہ مال پوے بھر کہ تھال ہیں 
پورے بھگت انہیں کہو صاحب کہ لال ہیں 
اُور جن کہ آگے روغنی اور شیرمال ہیں 
عارف وہی ہیں اُور وہی صاحب کمال ہیں 
پکی پکائی اب جنہیں آتی ہیں روٹیاں 
کپڑے کسی کہ لال ہیں روٹی کہ واسطے 
لمبے کسی کہ بال ہیں روٹی کہ واسطے 
باندھے کوئی رومال ہیں روٹی کہ واسطے 
سب کشف اُور کمال ہیں روٹی کہ واسطے 
جتنے ہیں روپ سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں 
روٹی سے ناچے پیادہ قواعد دکھا دکھا 
اسوار ناچے گھوڑے کو کاوہ لگا لگا 
گھنگھرو کو باندھے پیک بھی پھرتا ہے ناچتا 
اُور اس سوا جُو غور سے دیکھا تو جا بہ جا 
سو سو طرح کہ ناچ دکھاتی ہیں روٹیاں 
روٹی کہ ناچ تُو ہیں سبھی خلق میں پڑے 
کچھ بھانڈ بھیگتے یہ نہیں پھرتے ناچتے 
یہ رنڈیاں جُو ناچے ہیں گھونگھٹ کو منہ پہ لے 
گھونگھٹ نہ جانو دوستو تم زینہار اسے 
اس پردے میں یہ اپنے کماتی ہیں روٹیاں 
اشرافوں نے جُو اپنی یہ ذاتیں چھپائی ہیں 
سچ پوچھئے تُو اپنی یہ شانیں بڑھائی ہیں 
کہئے انہوں کی روٹیاں کس کس نے کھائی ہیں 
اشراف سب میں کہئے تُو اب نان بائی ہیں 
جن کی دکاں سے ہر کہیں جاتی ہیں روٹیاں 
دنیا میں اب بدی نہ کہیں اور نکوئی ہے 
یا دشمنی و دوستی یا تند خوئی ہے 
کوئی کسی کا اُور کسی کا نہ کوئی ہے 
سب کوئی ہے اسی کا کے جس ہاتھ ڈوئی ہے 
نوکر نفر غلام بناتی ہیں روٹیاں 
روٹی کا اب ازل سے ہمارا تُو ہے خمیر 
روکھی ہی روٹی حق میں ہمارے ہے شہد و شیر 
یا پتلی ہووے مُوٹی خمیری ہو یا فطیر 
گیہوں جوار باجرے کی جیسی ہو نظیرؔ 
.ہم کو تُو سب طرح کی خُوش آتی ہیں روٹیاں

نظیر اکبر آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *