رکھنا ہے تو پھولوں کو تو رکھ لے نگاہوں میں خوشبو تو مسافر ہے کھو جائے گی راہوں میں کیوں میری محبت سے برہم ہو زمیں والو اک اور گنہ رکھ لو دنیا کے گناہوں میں کیفیت مے دل کا درماں نہ ہوئی لیکن رنگیں تو رہی دنیا کچھ دیر نگاہوں میں کانٹوں سے گزر جانا دشوار نہیں لیکن کانٹے ہی نہیں یارو کلیاں بھی ہیں راہوں میں پردہ ہو تو پردہ ہو اس پردہ کو کیا کہئے چھپتے ہیں نگاہوں سے رہتے ہیں نگاہوں میں یاران رہ غربت کیا ہو گئے کیا کہئے کچھ سو گئے منزل پر کچھ کھو گئے راہوں میں گزری ہوئی صدیوں کو آغاز سفر سمجھو ماضی ابھی کمسن ہے فردا کی نگاہوں میں رنگیں ہے شمیمؔ اب تک پیراہن جاں اپنا ہم رات گزار آئے کس خواب کی بانہوں میں
شمیم کرہانی