Iztirab

Iztirab

رکھنا ہے تو پھولوں کو تو رکھ لے نگاہوں میں

رکھنا ہے تو پھولوں کو تو رکھ لے نگاہوں میں 
خوشبو تو مسافر ہے کھو جائے گی راہوں میں 
کیوں میری محبت سے برہم ہو زمیں والو 
اک اور گنہ رکھ لو دنیا کے گناہوں میں 
کیفیت مے دل کا درماں نہ ہوئی لیکن 
رنگیں تو رہی دنیا کچھ دیر نگاہوں میں 
کانٹوں سے گزر جانا دشوار نہیں لیکن 
کانٹے ہی نہیں یارو کلیاں بھی ہیں راہوں میں 
پردہ ہو تو پردہ ہو اس پردہ کو کیا کہئے 
چھپتے ہیں نگاہوں سے رہتے ہیں نگاہوں میں 
یاران رہ غربت کیا ہو گئے کیا کہئے 
کچھ سو گئے منزل پر کچھ کھو گئے راہوں میں 
گزری ہوئی صدیوں کو آغاز سفر سمجھو 
ماضی ابھی کمسن ہے فردا کی نگاہوں میں 
رنگیں ہے شمیمؔ اب تک پیراہن جاں اپنا 
ہم رات گزار آئے کس خواب کی بانہوں میں 

شمیم کرہانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *