Iztirab

Iztirab

رگ احساس میں نشتر ٹوٹا

رگ احساس میں نشتر ٹوٹا 
ہاتھ سے چھوٹ کے ساغر ٹوٹا 
ٹوٹنا تھا دل نازک کو نہ پوچھ 
کب کہاں کس لئے کیوں کر ٹوٹا 
سینہ دھرتی کا لرز اٹھا ہے 
آسماں سے کوئی اختر ٹوٹا 
جھک گیا پائے بتاں پر لیکن 
پتھروں سے نہ مرا سر ٹوٹا 
سخت جانی مری توبہ توبہ 
قتل کرتے تھے کہ خنجر ٹوٹا 
اشک پلکوں سے گرا یوں جیسے 
خشک ٹہنی سے گل تر ٹوٹا 
اے ضیاؔ ہو کے رہا زنداں سے 
اڑنے پایا بھی نہ تھا پر ٹوٹا 

ضیا فتح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *