Iztirab

Iztirab

ریل کا سفر

درپیش اچانک جو ہوئی ایک ضرورت
واہیؔ سے ہوئی ریل پہ چڑھنے کی حماقت
آ دھمکی ذرا وقت سے پہلے ہی وہ گاڑی
واہیؔ نے گھڑی دیکھی تو لاحق ہوئی حیرت
حیرت تھی کہ تعجیل کی کیا وجہ ہے آخر
تاخیر تو ہے ریل کی دیرینہ روایت
القصہ ٹکٹ منزل مقصود کا لے کر
اسباب لئے دوڑ کے پہنچا وہ بہ عجلت
آگے سے بھی پیچھے سے بھی کھاتا ہوا دھکے
داخل ہوا اک چھوٹے سے ڈبے میں بہ دقت
ڈبہ تھا کہ اک گنج شہیداں کا نمونہ
تھوڑی سی جگہ تنگ تر از گوشۂ تربت
تربت میں مگر پاؤں تو پھیلاتے ہیں مردے
زندوں کو نہیں ریل میں اس کی بھی سہولت
اسباب پہ بیٹھا تھا کوئی ٹانگ اڑائے
کھڑکی پہ کھڑا تھا کوئی دیوار کی صورت
اس بھیڑ میں گنجائش الفاظ کہاں تھی
الفاظ بھی ہونٹوں سے نکلتے تھے بہ دقت
تھا دم بخود اک گوشے میں سمٹا ہوا واہیؔ
کم بخت کو تھی سانس کے لینے کی ضرورت
اور سانس کے لینے کا نہ تھا کوئی بھی امکاں
تھی بند ہوا آکسیجن کی تھی یہ قلت
تھے ایک بزرگ اس کے مقابل میں جو بیٹھے
دیکھی نہ گئی ان سے جو واہیؔ کی یہ حالت
فرمانے لگے آپ کہاں جاؤ گے بھیا
برداشت بھی کر پاؤ گے رستے کی صعوبت
یہ ریل نہیں حضرت سوداؔ کی ہے گھوڑی
دور زمیں طے کرتی ہے اک دن کی مسافت
کل اس کو پہنچنا تھا جہاں آج ہے پہنچی
چوبیس پہر لیٹ ہے اللہ رے سرعت
میں اپنی تباہی کا بیاں کیا کروں بھیا
پٹنہ میں تھی کل میرے مقدمے کی سماعت
پٹنہ ہے مگر آج بھی دلی کی طرح دور
روتی ہے مری شامت اعمال کو قسمت
یہ سنتے ہی کان اس کے کھڑے ہو گئے فوراً
کی عرض کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا حضرت
میں نے تو یہ سمجھا تھا کہ ہے وقت پہ آئی
چوبیس پہر لیٹ قیامت ہے قیامت
بولے وہ بزرگ آپ بڑے سادہ ہیں بھیا
ہم لوگ کسی کام میں کرتے نہیں عجلت
معلوم نہیں آپ کو یہ نکتہ تاریخ
جو قوم کی خصلت ہے نہ ہی ریل کی خصلت
وہ ریل کی رفتار ہو یا وقت کی رفتار
اس ملک میں دونوں کو تساہل کی ہے عادت
پابندئ اوقات میں ہے شان غلامی
آزاد ہوا ہند تو کیا اس کی ضرورت
رضا نقوی واہی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *