Iztirab

Iztirab

زباں کو حکم ہی کہاں کہ داستان غم کہیں

زباں کو حکم ہی کہاں کہ داستان غم کہیں 
ادا ادا سے تم کہو نظر نظر سے ہم کہیں 
جو تم خدا خدا کہو تو ہم صنم صنم کہیں 
کہ ایک ہی سی بات ہے وہ تم کہو کہ ہم کہیں 
ملے ہیں تشنہ میکشوں کو چند جام اس لیے 
کہیں نہ حال تشنگی کہیں تو کم سے کم کہیں 
ستم گران سادہ دل یہ بات جانتے نہیں 
کہ وہ ستم ظریف ہیں ستم کو جو کرم کہیں 
سبو ہو میرے ہاتھ میں تو کاسۂ گداگری 
جو تم اٹھا لو جام تو لوگ جام جم کہیں 
شمیمؔ وہ نہ ساتھ دیں تو مجھ سے طے نہ ہو سکیں 
یہ زندگی کے راستے کہ زلف خم بہ خم کہیں 

شمیم کرہانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *