Iztirab

Iztirab

زخم بھی تازہ تھا اور اس پہ ہوا بھی تازہ

زخم بھی تازہ تھا اور اس پہ ہوا بھی تازہ 
دل نے رکھا تھا مگر رخش دعا بھی تازہ 
تر بہ تر ہے مرے ہاتھوں میں وہی جامنی رنگ 
تم نے پوچھا تھا کہ ہوتی ہے گھٹا بھی تازہ 
اب تلک ہے وہی جلتا ہوا صحرا وہی میں 
اب تلک ہے تپش شوق ندا بھی تازہ 
کس بہانے سے تجھے بھول رہوں اور خوش ہوں 
پھر بنا لے گا یہ دل ایک خدا بھی تازہ 
کس بہانے سے میں جاگوں تجھے ڈھونڈوں اب کے 
اب تو اس صحن میں ٹھہرے نہ ہوا بھی تازہ 
آئنہ مانگتا رہتا ہے وہی عکس ترا 
آنکھ رکھتی ہے ترا رنگ قبا بھی تازہ 
بس بہت حوصلہ رکھنے کی کہانی کہہ لی 
رات کو پھول مسلتی ہے ہوا بھی تازہ 

کشور ناہید

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *