Iztirab

Iztirab

زخم پرانے پھول سبھی باسی ہو جائیں گے

زخم پرانے پھول سبھی باسی ہو جائیں گے 
درد کے سب قصے یاد ماضی ہو جائیں گے 
سانسیں لیتی تصویروں کو چپ لگ جائے گی 
سارے نقش کرشموں سے عاری ہو جائیں گے 
آنکھوں سے مستی نہ لبوں سے امرت ٹپکے گا 
شیشہ و جام شرابوں سے خالی ہو جائیں گے 
کھلی چھتوں سے چاندنی راتیں کترا جائیں گی 
کچھ ہم بھی تنہائی کے عادی ہو جائیں گے 
کوچۂ جاں پر گہرے بادل چھائے رہیں گے زیبؔ 
اس کی کھڑکی کے پردے بھاری ہو جائیں گے

زیب غوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *