زخم ہے اور نمک فشانی ہے دوستی دشمنیٔ جانی ہے نقش اول ہے چہرۂ یوسف اور ترا چہرہ نقش ثانی ہے تیرے کوچے سے مانع رفتار ہم کو اپنی ہی ناتوانی ہے حسن میں چہرہ اس گل تر کا نقش رنگین کلک مانی ہے اس پہ پروانے گو ہجوم کریں شمع کی وہ ہی کم زبانی ہے اس سرا میں سبھی مسافر ہیں یعنی جو ہے سو کاروانی ہے عالم اس کی صفا کا مجھ سے نہ پوچھ نظم میں تیری جو روانی ہے مصحفیؔ شعر سادہ کہنے میں وقت کا اپنے تو فغانی ہے
غلام ہمدانی مصحفی