Iztirab

Iztirab

زلفوں کا بکھرنا اک تو بلا عارض کی جھلک پھر ویسی ہی

زلفوں کا بکھرنا اک تو بلا، عارض کی جھلک پھر ویسی ہی 
آنکھوں کا مٹکنا ہوش ربا، ہر ایک پلک پھر ویسی ہی 
وہ شوخ جو گزرے مثل صبا، تو بھڑکے نہ کیوں کر آتش دل 
اک طور کی اس کی جنبش پا، دامن کی جھٹک پھر ویسی ہی 
کوئی کیوں نہ گریباں چاک کرے اب دیکھ کے چھب کو اس بت کی 
پنڈے کا جھلکنا ہائے خدا، چولی کی مسک پھر ویسی ہی 
دل کیوں نہ کرے سینے میں تپش، جب یار کی ہو یہ راہ و روش 
رفتار میں اک البیلی ادا، اور قد کی لچک پھر ویسی ہی 
ہم کیوں نہ کف افسوس ملیں، جب وے ہی ترا پابوس کریں 
دامن سے زیادہ بند قبا، زلفوں کی لٹک پھر ویسی ہی 
وہ ماہ چھپایا تو نے کہاں ہے جس سے جگر پر داغ مرے 
صورت تو دکھا دے مجھ کو ذرا جلدی سے فلک پھر ویسی ہی 
اے مصحفیؔ میرے حال پہ اب کیوں کر نہ کوئی افسوس کرے 
بے ساختہ دل بیتاب ہوا آنسو کی ڈھلک پھر ویسی ہی

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *