Iztirab

Iztirab

زلف اگر دل کو پھنسا رکھتی ہے

زلف اگر دل کو پھنسا رکھتی ہے 
آنکھ پردوں میں چھپا رکھتی ہے 
ساتھ فہمیدگی گر ہووے تو پھر 
بت پرستی بھی مزا رکھتی ہے 
چہچہا رنگ مرے خون کا سا 
ترے پانو کی حنا رکھتی ہے 
آرسی ہوتی ہے سنمکھ تیرے 
کچھ بھی آنکھوں میں حیا رکھتی ہے 
کر دیا اس نے تو مجھ کو مدہوش 
کس کی بو باد صبا رکھتی ہے 
خاک دہلی کی ذرا سیر تو کر 
کہ عجب آب و ہوا رکھتی ہے 
ہائے تیکھی نگہ اس کافر کی 
کیا کہوں میں جو ادا رکھتی ہے 
تیری تصویر کو لے کر شیریں 
اپنی چھاتی سے لگا رکھتی ہے 
جب تلک آوے ہے تو پھر کے یہ چال 
خاک میں مجھ کو ملا رکھتی ہے 
آرسی سے نہ کرو کج نظری 
اس کا تم سے وہ گلا رکھتی ہے 
آہ میری ہے اثر سے ہم دوش 
طالع زلف رسا رکھتی ہے 
کیا ہے تقصیر جو ہم کو تجھ سے 
گردش چرخ جدا رکھتی ہے 
جھک پڑے ہے تیری پا بوسی کا 
زلف بھی شوق بلا رکھتی ہے 
گوشت اور پوست بھی گل جاتا ہے 
جسم کے بیچ یہ کیا رکھتی ہے 
مصحفیؔ نام ہے جس چیز کا چاہ 
آدمی کو تو کھپا رکھتی ہے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *