Iztirab

Iztirab

زمانے پر نہ سہی دل پہ اختیار رہے

زمانے پر نہ سہی دل پہ اختیار رہے
دکھا وہ زور کہ دنیا میں یادگار رہے
کہاں تلک دل غم ناک پردہ دار رہے
زبان حال پہ جب کچھ نہ اختیار رہے
نظام دہر نے کیا کیا نہ کروٹیں بدلیں
مگر ہم ایک ہی پہلو سے بے قرار رہے
ہنسی میں لغزش مستانہ اڑ گئی واللہ
تو بے گناہوں سے اچھے گناہ گار رہے
ابھارتی ہے ہوس توبہ رہائی کی
کہ دل کے ساتھ زباں کیوں گناہ گار رہے
دکھا دوں چیر کے دل درد دل کہوں کب تک
زباں پہ کیوں یہ تقاضائے ناگوار رہے
تڑپ تڑپ کے اٹھاؤں گا زندگی کے مزے
خدا نہ کردہ مجھے دل پہ اختیار رہے
سزائے عشق بقدر گناہ نا ممکن
یہی بہت ہے کہ برہم مزاج یار رہے
زمانہ اس کے سوا اور کیا وفا کرتا
چمن اجڑ گیا کانٹے گلے کا بار رہے
خزاں کے دم سے مٹا خوب و زشت کا جھگڑا
چلو یہ خواب ہوا گل رہے نہ خار رہے
جواب دے کے نہ توڑو کسی غریب کا دل
بلا سے کوئی سراپا امیدوار رہے
مزہ تو جب ہے یگانہؔ کہ یہ دل خودبیں
خودی کے نشے میں بیگانہ خمار رہے
یگانہؔ حال تو دیکھو زمانہ سازوں کا
ہوا میں جیسے بگولا خراب و خوار رہے

یگانہ چنگیزی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *