Iztirab

Iztirab

زمیں پر روشنی ہی روشنی ہے

زمیں پر روشنی ہی روشنی ہے
خلا میں اک کرن گم ہو گئی ہے
میں تنہا جا رہا ہوں سوئے منزل
یہ پرچھائیں کہاں سے آ رہی ہے
یہ شام اور روشنی کی یہ قطاریں
اداسی اور گہری ہو گئی ہے
عروج ماہ ہے اور مقبروں پر
ابد کی چاندنی چٹکی ہوئی ہے
ابھار اے موج طوفاں خیز مجھ کو
یہ کشتی ریت میں ڈوبی ہوئی ہے
ہوا سے ہے کلی جنباں سر شاخ
یہ کن ہاتھوں میں نیزے کی انی ہے
گرا ہے شاخ گل سے ایک پتہ
کسی نے کیا مجھے آواز دی ہے
رئیس امروہوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *