Iztirab

Iztirab

زمیں کا آخری منظر دکھائی دینے لگا

زمیں کا آخری منظر دکھائی دینے لگا 
میں دیکھتا ہوا پتھر دکھائی دینے لگا 
وہ سامنے تھا تو کم کم دکھائی دیتا تھا 
چلا گیا تو برابر دکھائی دینے لگا 
نشان ہجر بھی ہے وصل کی نشانیوں میں 
کہاں کا زخم کہاں پر دکھائی دینے لگا 
وہ اس طرح سے مجھے دیکھتا ہوا گزرا 
میں اپنے آپ کو بہتر دکھائی دینے لگا 
تجھے خبر ہی نہیں رات معجزہ جو ہوا 
اندھیرے کو، تجھے چھو کر، دکھائی دینے لگا 
کچھ اتنے غور سے دیکھا چراغ جلتا ہوا 
کہ میں چراغ کے اندر دکھائی دینے لگا 
پہنچ گیا تری آنکھوں کے اس کنارے تک 
جہاں سے مجھ کو سمندر دکھائی دینے لگا 

شاہین عباس

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *