زمیں کا یہ ٹکڑا
مرے بڑھتے قدموں کو چاروں دشاؤں سے اپنی طرف کھینچتا ہے
گلے سے لگا کر مجھے بھینچتا ہے
کہ بارہ برس سے یہاں دفن ہوں میں
زمیں کا یہ ٹکڑا
مرے دیدہ و دل کی منزل مری زندگی ہے
کہ ذروں میں اس کے عجب دل کشی ہے
مگر میں تو اس سے گریزاں رہا ہوں گریزاں ہوں اب بھی
کہاں سامنا کر سکوں گا میں اس کا کہ اس تودۂ خاک کے روبرو میں
پشیماں تھا کل بھی پشیماں ہوں اب بھی
پشیمانیاں میرے شام و سحر کا مقدر
پشیمانیوں سے مرے روز و شب کی فضائیں مکدر
زمیں کا یہ ٹکڑا
دکھاتا ہے مجھ کو مری بے بسی کا وہ آئینہ جس میں
ابھی تک وہ اک ساعت منفعل منعکس ہے
کہ جب وہ مجھے یا اسے قتل کرنے کو لے جا رہے تھے
وہ ہی جو یہاں خاک کی چادر اوڑھے ہوئے چپ پڑا ہے
جو میرا ہی اک پیکر خوں شدہ ہے
تو جب وہ اسے یا مجھے قتل کرنے کو لے جا رہے تھے
تو بے دست و پا اک تماشائی کی طرح میں ان کا منہ تک رہا تھا
سمجھ میں نہ آئے اگر اب میں سوچوں مجھے کیا ہوا تھا
مری بے بسی تھی کسی لمحۂ بے بصیرت کی سازش
کہ اس میں کوئی مصلحت اس کی تھی دید و دانش میں قد جس کا سب سے بڑا ہے
جو ہر عہد آئندہ و رفتہ کے علم و علت کی حد ہے
ازل سے ابد ہے
زمیں کا یہ ٹکڑا
جہاں آ کے میں خود کو بوڑھا سا محسوس کرنے لگا ہوں
خود اندر ہی اندر بکھرنے لگا ہوں
مری ہر تگ و دو کا حاصل ہے حد ہے
ازل ہے ابد ہے
زمیں کا یہ ٹکڑا
مخمور سعیدی