Iztirab

Iztirab

زندگی درد کی کہانی ہے

زندگی درد کی کہانی ہے 
چشم انجم میں بھی تو پانی ہے 
بے نیازانہ سن لیا غم دل 
مہربانی ہے مہربانی ہے 
وہ بھلا میری بات کیا مانے 
اس نے اپنی بھی بات مانی ہے 
شعلۂ دل ہے یہ کہ شعلہ ساز 
یا ترا شعلۂ جوانی ہے 
وہ کبھی رنگ وہ کبھی خوشبو 
گاہ گل گاہ رات رانی ہے 
بن کے معصوم سب کو تاڑ گئی 
آنکھ اس کی بڑی سیانی ہے 
آپ بیتی کہو کہ جگ بیتی 
ہر کہانی مری کہانی ہے 
دونوں عالم ہیں جس کے زیر نگیں 
دل اسی غم کی راجدھانی ہے 
ہم تو خوش ہیں تری جفا پر بھی 
بے سبب تیری سرگرانی ہے 
سر بہ سر یہ فراز‌ مہر و قمر 
تیری اٹھتی ہوئی جوانی ہے 
آج بھی سن رہے ہیں قصۂ عشق 
گو کہانی بہت پرانی ہے 
ضبط کیجے تو دل ہے انگارا 
اور اگر روئیے تو پانی ہے 
ہے ٹھکانا یہ در ہی اس کا بھی 
دل بھی تیرا ہی آستانی ہے 
ان سے ایسے میں جو نہ ہو جائے 
نو جوانی ہے نو جوانی ہے 
دل مرا اور یہ غم دنیا 
کیا ترے غم کی پاسبانی ہے 
گردش چشم ساقیٔ دوراں 
دور افلاک کی بھی پانی ہے 
اے لب ناز کیا ہیں وہ اسرار 
خامشی جن کی ترجمانی ہے 
مے کدوں کے بھی ہوش اڑنے لگے 
کیا تری آنکھ کی جوانی ہے 
خودکشی پر ہے آج آمادہ 
ارے دنیا بڑی دوانی ہے 
کوئی اظہار ناخوشی بھی نہیں 
بد گمانی سی بد گمانی ہے 
مجھ سے کہتا تھا کل فرشتۂ عشق 
زندگی ہجر کی کہانی ہے 
بحر ہستی بھی جس میں کھو جائے 
بوند میں بھی وہ بیکرانی ہے 
مل گئے خاک میں ترے عشاق 
یہ بھی اک امر آسمانی ہے 
زندگی انتظار ہے تیرا 
ہم نے اک بات آج جانی ہے 
کیوں نہ ہو غم سے ہی قماش اس کا 
حسن تصویر شادمانی ہے 
سونی دنیا میں اب تو میں ہوں اور 
ماتم عشق آنجہانی ہے 
کچھ نہ پوچھو فراقؔ عہد شباب 
رات ہے نیند ہے کہانی ہے 

فراق گورکھپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *