Iztirab

Iztirab

زندگی کا وقفہ

رات سناٹے کی چادر میں پڑی ہے لپٹی
پتیاں سڑکوں کی سب جاگ رہی ہیں جیسے
دیکھنا چاہتی ہیں شہر میں کیا ہوتا ہے
میں ہمیشہ کی طرح ہونٹوں میں سگریٹ کو دبائے
سونے سے پہلے خیالات میں کھویا ہوا ہوں
دن میں کیا کچھ کیا اک جائزہ لیتا ہے ضمیر
ایک سادہ سا ورق نامۂ اعمال ہے سب
کچھ نہیں لکھا بجز اس کے پسے جاؤ یوں ہی
کچھ نہیں لکھا بس اک اتنا کہ انساں کا نصیب
گیلی گوندھی ہوئی مٹی کا ہے اک تودہ سا
دن میں سو شکلیں بنا کرتی ہیں اس مٹی سے
کچھ نہیں لکھا بس اک اتنا کہ چیونٹی دل ہے
جوق در جوق جو انسان نظر آتے ہیں
دانہ لے کر کسی دیوار پہ چڑھنا گرنا
اور پھر چڑھنا چڑھے جانا یوں ہی شام و سحر
کچھ نہیں لکھا بس اتنا کہ پسے جاؤ یوں ہی
اور اندوہ تأسف خوشی آلام نشاط
خود کو سو ناموں سے بہلاتے رہو چلتے رہو
سانس رک جائے جہاں سمجھو وہیں منزل ہے
اور اس دوڑ سے تھک جاؤ تو سگریٹ پی لو
اختر الایمان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *