Iztirab

Iztirab

زندگی

تمتمائے ہوئے عارض پہ یہ اشکوں کی قطار 
مجھ سے اس درجہ خفا آپ سے اتنی بیزار 
میں نے کب تیری محبت سے کیا ہے انکار 

مجھ کو اک لمحہ کبھی چین بھی آیا تجھ بن 
عشق ہی ایک حقیقت تو نہیں ہے لیکن 
زندگی صرف محبت تو نہیں ہے انجم 

سوچ دنیا سے الگ بھاگ کے جائیں گے کہاں 
اپنی جنت بھی بسائیں تو بسائیں گے کہاں 
امن اس عالم افکار میں پائیں گے کہاں 

پھر زمانے سے نگاہوں کا چرانا کیسا 
عشق کی ضد میں فرائض کو بھلانا کیسا 
زندگی صرف محبت تو نہیں ہے انجم 

تیر افلاس سے کتنوں کے کلیجے ہیں فگار 
کتنے سینوں میں ہے گھٹتی ہوئی آہوں کا غبار 
کتنے چہرے نظر آتے ہیں تبسم کا مزار 

اک نظر بھول کے اس سمت بھی دیکھا ہوتا 
کچھ محبت کے سوا اور بھی سوچا ہوتا 
زندگی صرف محبت تو نہیں ہے انجم 

رنج غربت کے سوا جبر کے پہلو بھی تو ہیں 
جو ٹپکتے نہیں آنکھوں سے وہ آنسو بھی تو ہیں 
زخم کھائے ہوئے مزدور کے بازو بھی تو ہیں 

خاک اور خون میں غلطاں ہیں نظارے کتنے 
قلب انساں میں دہکتے ہیں شرارے کتنے 
زندگی صرف محبت تو نہیں ہے انجم 

عرصۂ دہر پہ سرمایہ و محنت کی یہ جنگ 
امن و تہذیب کے رخسار سے اڑتا ہوا رنگ 
یہ حکومت یہ غلامی یہ بغاوت کی امنگ 

قلب آدم کے یہ رستے ہوئے کہنہ ناسور 
اپنے احساس سے ہے فطرت انساں مجبور 
زندگی صرف محبت تو نہیں ہے انجم 

آپ کو بند غلامی سے چھڑانا ہے ہمیں 
خود محبت کو بھی آزاد بنانا ہے ہمیں 
اک نئی طرز پہ دنیا کو سجانا ہے ہمیں 

تو بھی آ وقت کے سینے میں شرارا بن جا 
تو بھی اب عرش بغاوت کا ستارا بن جا 
زندگی صرف محبت تو نہیں ہے انجم 

جاں نثاراختر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *